اردوشاعری اپنی مثال آپ ہے، میری ڈائری میں ایک صفحہ ان اشعار کے نام ہے، جس کا ایک نہ ایک مصرعہ خاص ہے!
[nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#d6bc39″]
وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر، کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں
ہاں نہیں تیری رفاقت کی ضرورت مجھ کو
میری مونس، میری ہمدم، میری تنہائی
کوئی نیا احسان کہ ہمدمِ دیرینہ
جتنے پرانے زخم تھے بھرتے جاتے ہیں
وہ دلنواز ہے، لیکن نظرشناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
قضا آئی، طبیب آیا، وہ آئے، دیکھ کون آیا
کس نے اے جنوں زنجیر کھڑکائی مرے در کی
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
نالۂ بلبلِ شیدا تو سنا ہنس ہنس
اب جگر تھاک کے بیٹھو میری باری آئی
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ھی گیا
میری جانب سے تیرے دل میں غبار آ ھی گیا
قیس صحرا میں تنہا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں دیوانے دو
عذر آنے میں بھی ہےاور بلاتے بھی نہیں
باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہونگے
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
نزاکت نازنینوں کے بنانے سے نہیں بنتی
خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے
مت سہل اسے جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
غزالاں! تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا، آخر ویرانے پہ کیا گزری
لائی حیات، آئے قضا، لے چلی چلے
اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہو گئی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گئی
قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خوں کیونکر
جو چپ رہے گی زبان، خنجر لہو پکارے گا آستین کا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
یہ دستورِزباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
ہم ہوئے ، تم ہوئے ، میرؔ ہوئے
اسکی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا ہوا جو تو نے فراموش کر دیا
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھکو بھی شرمسار کر
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
دو کناروں کا ایک سنگم ہے
میرے اندر کا آدمی اور میں
انتخاب و پیشکش: مسعودؔ
[/nk_awb]
اظہار کیجیے