گلدستۂ غزل

گلوں میں رنگ بھرے

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
Despair
گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے 

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

 بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جوکوئے یار سے نکلے توسوئے دار چلے

شاعر:فیض احمد فیض

ایک لمبی اورتھکا دینے والی خزاں ہےجو ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی، ہر گل پتی پھول پھلجھڑی اداس ہے، تنہا ہے ، بے رنگ ہے ، بے سازوسرود ہے۔ ایسے میں تم آؤ تو ان گلوں میں رنگ بھرے جائیں، خزاں کی اداسیاں کم ہوں اور بادِ پروائی چلے۔گلشن میں چہل قدمی ہو، پرندوں کے شوروغل ہو، پتی پتی بوٹا بوٹا محبت کی صدائیں دے، بادِبہاری میں محبتوں کے پھول کھلیں – چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے!

دل شدت سے اداس ہے!  بے چین ہے بے کل ہے! پل پل ماضی کی پرچھائیاں برچھائیاں بن کر سینے چھیدتی ہیں! پرندے گھونسلوں میں پروں کو پڑپڑا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ کوئی انہونی ہو گئی ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی سالہاسال کے انتظار کے بعد قافلے تک پہنچا ہے مگر قافلے اسکے آنے سے پہلے ہی گزرگیا! دل کا قفس بھی اسی طرح بیحال ہے یار! یارو آج تک قاصد سے کہو کہ میرے محبوب کا کوئی اتا پتا لے آئے! آج تو کوئی ایسی بات چھیڑو کہ میرے محبوب کی خوشبو آئے۔

زندگی اسقدربے چین ہےکہ اب تو طلب ہوئی جاتی ہے کہ کاش  تیری زلفِ گرہ گیر میرے چہرے پر اپنی خوشبو بکھیرے، تیرے بدن کے مدوجزر میرے بدن کو محسوس کرے، تیری زلفیں سے میرے انگلیاں اٹھکلیاں کریں، تیرے ہونٹوں سے میرے ہونٹ شرارتیں کریں – چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبارچلے۔ جان لو کہ تیرے میرے درمیان جو دکھ درد کا رشتہ ہے وہ میرا اثاثہ ہےمیرے غریب بے نوا دل کو یہ رشتہ کافی ہے۔ توساتھ دے تو تیرا ساتھ کافی ہے!

مگر!!! 
عہدوپیماں ٹوٹے، وعدے ایفا نہ ہوئے۔دل ایسے ٹوٹے کہ جڑ نہ سکے۔ رنج و ملال بڑھتے گئے۔ شک و شبہوت زور پکڑتے گئے اور تم نے دکھ پہ دکھ دئیے۔ درد پر درد دئیے۔ جوروستم کیے۔ ہم دیوانہ وار سرپکڑ کر خود سے بیگانے ہوئے۔ تڑپے، ترسے، پل پل روئے۔ آہ و فغاں کی، دل کی کدورتیں دورکرنے کو کہا۔ ہم پہ جوبھی گزری ہم نے برداشت کی شب کی تنہائیوں میں تیرے حق میں دعائیں کی۔ محبت کی منتیں مانگی۔ رات کی تاریکیوں میں رو رو کر تمہاری بہتری کے لیے دعائیں کی۔ہم نے ہر پل خود پر ہونے والے جورستم کو برداشت کیا کہ تمہاری راہیں آسان ہو جائیں۔ ہمارے اشک کبھی رائیگاں نہیں جائیں گے۔

اورپھر جب لیلیٰ کے محل میں دیوانے کی آزمائش ہوئی تو ہم نے اپنے گریبان کے ایک ایک تار کو پیشِ نظر کردیا۔ جو کچھ بھی پاس تھا یہی وہ اثاثہ تھا – ناکامِ جنوں کا اثاثہ – تارتار گریباں!!! یہی تھا ہمارامقام۔ جسے کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ عشق میں صرف دو ہی مقام ہوتے ہیں: ایک وہ جہاں میرا دلدار صنم ہے اور اگر کوئی صنم نہیں تو سوئے دار ہی مقام ہے۔ انکے بیچ کچھ نہیں!

تبصرہ مسعود


گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

کاتب کے متعلق

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھا ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

اظہار کیجیے

کامنٹ کیجیے