گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے گلوں میں رنگ بھرے
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ایک لمبی اورتھکا دینے والی خزاں ہےجو ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی، ہر گل پتی پھول پھلجھڑی اداس ہے، تنہا ہے ، بے رنگ ہے ، بے سازوسرود ہے۔ ایسے میں تم آؤ تو ان گلوں میں رنگ بھرے جائیں، خزاں کی اداسیاں کم ہوں اور بادِ پروائی چلے۔گلشن میں چہل قدمی ہو، پرندوں کے شوروغل ہو، پتی پتی بوٹا بوٹا محبت کی صدائیں دے، بادِبہاری میں محبتوں کے پھول کھلیں – چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے! دل شدت سے اداس ہے! بے چین ہے بے کل ہے! پل پل ماضی کی پرچھائیاں برچھائیاں بن کر سینے چھیدتی ہیں! پرندے گھونسلوں میں پروں کو پڑپڑا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ کوئی انہونی ہو گئی ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی سالہاسال کے انتظار کے بعد قافلے تک پہنچا ہے مگر قافلے اسکے آنے سے پہلے ہی گزرگیا! دل کا قفس بھی اسی طرح بیحال ہے یار! یارو آج تک قاصد سے کہو کہ میرے محبوب کا کوئی اتا پتا لے آئے! آج تو کوئی ایسی بات چھیڑو کہ میرے محبوب کی خوشبو آئے۔ زندگی اسقدربے چین ہےکہ اب تو طلب ہوئی جاتی ہے کہ کاش تیری زلفِ گرہ گیر میرے چہرے پر اپنی خوشبو بکھیرے، تیرے بدن کے مدوجزر میرے بدن کو محسوس کرے، تیری زلفیں سے میرے انگلیاں اٹھکلیاں کریں، تیرے ہونٹوں سے میرے ہونٹ شرارتیں کریں – چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبارچلے۔ جان لو کہ تیرے میرے درمیان جو دکھ درد کا رشتہ ہے وہ میرا اثاثہ ہےمیرے غریب بے نوا دل کو یہ رشتہ کافی ہے۔ توساتھ دے تو تیرا ساتھ کافی ہے! مگر!!! اورپھر جب لیلیٰ کے محل میں دیوانے کی آزمائش ہوئی تو ہم نے اپنے گریبان کے ایک ایک تار کو پیشِ نظر کردیا۔ جو کچھ بھی پاس تھا یہی وہ اثاثہ تھا – ناکامِ جنوں کا اثاثہ – تارتار گریباں!!! یہی تھا ہمارامقام۔ جسے کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ عشق میں صرف دو ہی مقام ہوتے ہیں: ایک وہ جہاں میرا دلدار صنم ہے اور اگر کوئی صنم نہیں تو سوئے دار ہی مقام ہے۔ انکے بیچ کچھ نہیں!
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
جوکوئے یار سے نکلے توسوئے دار چلے
عہدوپیماں ٹوٹے، وعدے ایفا نہ ہوئے۔دل ایسے ٹوٹے کہ جڑ نہ سکے۔ رنج و ملال بڑھتے گئے۔ شک و شبہوت زور پکڑتے گئے اور تم نے دکھ پہ دکھ دئیے۔ درد پر درد دئیے۔ جوروستم کیے۔ ہم دیوانہ وار سرپکڑ کر خود سے بیگانے ہوئے۔ تڑپے، ترسے، پل پل روئے۔ آہ و فغاں کی، دل کی کدورتیں دورکرنے کو کہا۔ ہم پہ جوبھی گزری ہم نے برداشت کی شب کی تنہائیوں میں تیرے حق میں دعائیں کی۔ محبت کی منتیں مانگی۔ رات کی تاریکیوں میں رو رو کر تمہاری بہتری کے لیے دعائیں کی۔ہم نے ہر پل خود پر ہونے والے جورستم کو برداشت کیا کہ تمہاری راہیں آسان ہو جائیں۔ ہمارے اشک کبھی رائیگاں نہیں جائیں گے۔
اظہار کیجیے